– Chhotu Singh Rawat, Ajmer, Rajasthan
حکومت کئی سالوں سے بچوں کی صحت اور غذائیت کی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بچوں اور خواتین کی صحت کی بہتر ترقی کے لیے مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے اپنی اپنی سطح پر مختلف اسکیمیں چلائی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی رضاکار تنظیمیں بھی اس سمت میں سرگرم عمل ہیں۔ اس سب کا مقصد غریب اور محروم مزدوروں اور ان کے خاندانوں کو سماج کے مرکزی دھارے سے جوڑنا ہے۔ لیکن ان کوششوں کے باوجودسب سے زیادہ غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے مہاجر مزدور اور ان کے بچے سرکاری اسکیموں سے محروم رہتے ہیں۔حالانکہ انہیں اس سے جوڑنے میں کئی غیر سرکاری تنظیمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی طرح راجستھان میں بھی یہ صورتحال صاف نظر آرہی ہے۔اجمیر اور بھیلواڑہ سمیت پورے راجستھان میں 3500 سے زیادہ اینٹوں کے بھٹے کام کر رہے ہیں۔جہاں چھتیس گڑھ، بہار، اتر پردیش، اڈیشہ، جھارکھنڈ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے دور دراز دیہی علاقوں سے تقریباً ایک لاکھ مزدور ہر سال کام کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہ مزدور 8 سے 9 ماہ تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے آتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد خواتین، نوعمر لڑکیوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔ جہاں سہولیات برائے نام ہوتے ہیں۔ بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کے لیے تو کوئی بھی سہولیات نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود معاشی مجبوریاں مزدوروں کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ ان علاقوں میں کام کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔ چونکہ یہاں کام کرنے والے زیادہ تر مزدور دوسری ریاستوں سے آئے ہوئے ہوتے ہیں، اس لیے وہ کسی بھی سرکاری اسکیم کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں۔ جس سے کام کرنے والی خواتین اور ان کے بچوں کی ہمہ جہت ترقی متاثر ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں سنٹر فار لیبر ریسرچ اینڈ ایکشن، اجمیر کی ضلع کوآرڈینیٹر آشا ورما کا کہنا ہے کہ ’’اینٹوں کے بھٹوں پر لاکھوں تارکین وطن مزدور اور ان کے بچے آتے ہیں، جنہیں صحت اور خواتین اور بچوں کی ترقی کے محکمے کی خدمات حاصل ہونی چاہئے، لیکن زمینی سطح پر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ اگر ہم 0 سے 5 سال کی عمر کے بچوں کی غذائیت کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا مسئلہ ان مہاجر مزدوروں کے بچوں کا ہے۔اگر بروقت ویکسینیشن، کھانے پینے اور غذائیت سے بھرپور خوراک اوراینٹوں کے بھٹوں پر خواتین اور نوعمر لڑکیوں کی صحت کی حالت پر نظر ڈالی جائے تو یہ بھی تشویشناک صورتحال سے دوچار نظر آتی ہے، کیونکہ ان جگہوں پر ان کے لیے بیت الخلاء کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہوتاہے۔ ایسی صورت حال میں کھلے میں رفع حاجت کا ان کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے، اضافی ماہواری کے وقت سینیٹری نیپکن کی مناسب فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہ خواتین اور نوعمر لڑکیاں کئی طرح کے صحت کے مسائل سے دوچار رہتی ہیں۔
آشا ورما کے مطابق، ان مہاجر مزدوروں کے بچوں اور خواتین کی صحت کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے، تنظیم گزشتہ تین سالوں سے اجمیر اور بھیلواڑہ کے علاقے میں اینٹوں کے 20 بھٹوں پر کنڈرگارڈن سینٹر چلا رہی ہے ، جس میں 0 سے 6 سال کی عمر کے 620 بچے نامزدہیں۔جنہیںروزانہ خشک اور گرم غذائیت دی جا تی ہے۔ جو بچے غذائی قلت کے زمرے میں آتے ہیں انہیں نہ صرف غذائیت کے علاج کے مرکز میں دکھایا جاتا ہے بلکہ تنظیم کی جانب سے ان کی صحت کے لئے خصوصی محنت کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں میں اینٹوں کے بھٹوں پر اپنے خاندانوں کے ساتھ رہنے والے غذائی قلت کے شکار بچوں کی حالت کا جائزہ لیں تو اس میں کافی بہتری آئی ہے۔ اب تک، ان کنڈرگارڈن مراکز کے ذریعے 100 سے زائد بچوں کو غذائی قلت سے پاک صحت مند بچوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان بچوں اور حاملہ خواتین کی مکمل ویکسینیشن کے لیے بھی وقتاً فوقتاً پہل کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کنڈر گارڈن سنٹرز میں بچوں کے ساتھ سیکھنے کی سرگرمیاں بھی کروائی جاتی ہیں تاکہ ان کی تعلیم میں دلچسپی برقرار رہے۔ اس کے لیے ہر ماہ بچوں کی گروتھ مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے مہاجر مزدوروں کے بچوں پر تعلیم کا حق قانون نافذنہیں ہوتا؟ تاہم حکومت ہمیشہ بچوں کی تعلیمی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتی ہے۔ اس کے لیے حکومت ہمیشہ نئی نئی اسکیمیں لے کر آتی ہے، تاکہ کوئی بھی بچہ تعلیم جیسی بنیادی حق سے سے محروم نہ رہے۔ اس کے لیے ملک میں رائٹ ٹو ایجوکیشن(حق تعلیم) ایکٹ بھی نافذ کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود زیادہ تر مہاجر مزدوروں کے بچے اس حق سے محروم ہیں۔ آشا ورما کے مطابق اس سمت میں کام کرنے والی تنظیم سنٹر فار لیبر ریسرچ اینڈ ایکشن(سی ایل آر اے) اور دیگر غیر سرکاری ادارے اور تنظیمیں اس میں بہت اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ جن کی جانب سے ان بچوں کو مقامی اسکول سے منسلک کرنے کے لیے ہر سال محکمہ تعلیم کو فہرست فراہم کی جاتی ہے۔
تاہم اب تک محکمہ کی جانب سے ان بچوں کو تعلیم سے جوڑنے کے لیے اب تک کوئی مثبت ڈھانچہ تیار نہیں کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہاجر بچے پڑھنے اور کھیلنے کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ یومیہ مزدوری کرنے والے مزدور بن رہے ہیں۔ آشا ورما کے مطابق، چونکہ ان مہاجر بچوں کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہوتے ہیں اور وہ اپنے آبائی شہر سے درمیان میں ہی اسکول چھوڑ چکے ہوتے ہیں، اس لیے کام کی جگہ کے آس پاس کے سرکاری اسکول انھیں داخل کرنے سے گریزکرتے ہیں۔ جبکہ رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کہتا ہے کہ تمام بچوں کو بغیر کسی دستاویز کے ان کی رہائش کے سب سے قریب کے اسکول میں داخل کرایا جائے۔ لیکن آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سرکاری اسکول اور اس کی انتظامہ بغیر دستاویزات کے ایسے بچوں کو داخلہ دینے سے انکارکر دیتی ہے۔ یہ حق تعلیم قانون کی سراسر خلاف ورزی ہے۔اسے مقامی انتظامہ اور محکمہ تعلیم کی بے حسی ہی مانا جائے گا جس کی وجہ سے یہ بچے تعلیم کے زیور سے محروم رہ جاتے ہیں۔آشا ورما کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں اجمیر اور بھیلواڑہ اضلاع میں 20 اینٹوں کے بھٹوں پر ایسے کنڈرگارڈن مراکز میں تقریباً 1800 مہاجر بچوں کو داخل کیا گیا ہے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ درحقیقت، راجستھان میں اینٹوں کے بھٹے پر حکومت کی طرف سے آنگن واڑی مراکز کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ تمام مہاجر بچے ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں جو انہیں بچپن کی نشوونما کے دوران فراہم کیے جانے چاہئے۔ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی اور ذہنی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ ایسے میں حکومت کو ایسی پالیسیاں، اسکیمیں اور ڈھانچہ تیار کرنا چاہیے جس سے کہ نقل مکانی کرنے والے بچے تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں۔ (چرخہ فیچرس)